Saturday, July 3, 2010

کیا ہم ایک قوم ہیں


!!!کیا ہم ایک قوم ہیں۔۔۔۔۔

ایک اللہ،ایک نبی (ص)،ایک قرآن اور ایک دین کے ماننے والے کیوں مختلف گروہوں، طبقوں، برادریوں میں بٹ کر کیوں آپس میں دست و گریباں ہیں؟
جب تک امت محمدی پر رسول اللہ(ص) کی حیات طیبہ کے دوران ان کی سیرت مبارکہ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے رکھا تو اس وقت ابوبکر صدیق،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی شیر خدا،حضرت بلال حبشی ،حضرت ابوہریرہ جیسے ہزاروں صحابہ کی روشن زندگیوں نے جاہلوں کے دلوں کو منور کیا بے علموں کو علم کی دولت سے مالا مال کیا پریشان افراد کی پریشانیوں کو دور کیا غریبوب، مستحقوں، یتیموں، ناداروں، بے بسوں، بے کسوں، بے سہاروں، لاوارثوں، مجبوروں، مصیبت کے ماروں اور مشکل میں گرے ہوئے افراد کی داد رسی کی اور انہیں وہ منصب عطا کئے جن کے بارے میں ان کا تصور کرنا نا ممکنات میں شامل تھا شرط یہ رکھی گئی تھی کہ اعلی منصب کا اہل دنیا اور آخرت میں وہی شخص ہو گا متقی ہو گا جس سے صحابہ اکرام دنیا کی غرض وا غائد سے بےنیاز ہو کر مالک کائنات اور اسکے رسول(ص) کی خوشنودی کےلئے مشغول ہو گئے اور پھر امت محمدی دنیا عالم کی فاتح بن کر چھا گئی
انکے دورحکومت میں مسلم تو مسلم غیر مسلموں کو بھی انکے گھورں میں پنا ہ مل گئی بوڑھوں، عورتوں بچوں کو امان مل گئی زرعی زمینوں پھل دار درختوں اور چادر چار دیواری کا تقدس ممکن ہو گیا پھر کیا ہو کہ تسبیح میں پروئے ہوئے دانوں کی طرح مسلمان
بکھرگئے ہر جانب افراتفری ،بے سکونی،بے چینی،پریشانی،بے ایمانی نے گھرکرلیا ،سلطنت عثمانیہ کے‌حصے بخرے کر کے ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھیر دیا گیا غلامی کی زنجیروں میں حکمرانی کے اہل امتیوں کو باندھ دیا گیا ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے انکی نسل کشی کر کے انہیں ناکارہ بنایا گیا اور رہی سہی کسر 1857ء میں فرنگیوں نے برصغیر میں‌آ کر نکال دی میسور کے‌حکمران ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انہوں نے اپنے پروگراموں
کو پایہ تکمیل تک پہنچانا شروع کر دیا اورdivide&Rule کے تحت ذات پات،برادری کے نظام کے ذریئعے معاشرتی نظام کو زہر آلود کر دیا
قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسہ جاری رہا اور ان افراد کو بھاری نزرانے ،جاگیریں الاٹ کی گئی جن کے حسن نصب کا اتہ پتہ معلوً نہ تھا یہیں سے کال سیفیکشن شروع ہوئی ،طبقاتی نظام تعلیم کا آغاز ہوا ،حکمرانی طبقے کے ساتھ ساتھ محکوم طبقوں کے لئے علیحدہ علیحدہ سانچےمرتب کئے گئے لوگوں کے پرکھنے کا معیار ظاہری نمود و نمائش رکھا گیا ،قومیت کا عنصر نا پید ہو گیا اورہم62سالوں میں بھی ایک
قوم نہ بن سکے اور شعور کی کمی کی جہالت کہ وجہ ٹھہری
حکمرانوں نے بیوروکریٹس نے سرمایہ داروں ،جاگیرداروں رسہ گیروں نے عوام کی عزت
کوسرعام نیلام کر دیا
خود محلوں میں بیٹھے عیاش پرست ٹولوں کی طرح مادر وطن کے وسائل کو شیر مادر کی طرح ہڑپ کرتے رہے آنے والا ہر شخص جانے والے کی برائی کرتا رہا نہ کسی نے اصلاح کی،نہ کسی نے تعمیر کی،نہ کسی نے لوگوں کو شعور دیا تو کس نے قوم بنانی تھی قوم بنانے والوں کو زیارت میں قائد اعظم محمد علی جناب کے آخری لمحات میں آکسیجن کے سلنڈر تک خالی
بجھوائے اور انکی ایمبولینس کو بےیار و مدد گار چھوڑ دیا گیا مکھیاں ان پر بنبناتی رہیں اور وہ بے کسی کے عالم میں اپنے ہاتھوں
سے بننے والےوطن کو دیکھتے رہے اور دل مین خون کے آنسو روتے رہے ان لوگوں کا مقصد تو صرف اور صرف دولت کو اکٹھا کرنا تھا اس مقصد کےلئے بے شک انہیں اپنے‌ضمیروں کا سودا کرنا پڑے ،غیرتوں کی نیلامی کرنی پڑے،اپنے اور غیروں کی عزت و نفس مجروح کرنا پڑے سٹیٹ بنک کو خالی کرنا پڑے سرکاری وسائل کو بے شرموں کی طرح ہڑپ کرنا پڑے اسی وجہ سے میرے وطن پر کبھی بہار کا موسم نہیں‌آیا اور اگر آیا تو اس سے پہلے‌
خزاں آگئی
ہم اپنی
موجودہ حالت
کے ذمہ دار ہیں ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ تکلیف کا احساس وجود ختم ہو چکا ہے باقی کسر صاحب اقتدار لوگوں نے نکال دی ہےا مریکہ اب ہمیں ہندو بنئے بھی دھمکیاں دینے ہر تر آئیں ہیں کیا ہم ایک خود مختار اور آزاد بلکہ سب سے بڑھ کر ایک اسلامی مملکت کے فرد نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟
جہاں ہمارے حقوق محفوط نہ ہیں خدارا قوم کو جانوروں کے ریوڑ کی طرح نہ ہانکیں اور انکی سوچھنے سمجھنے کی قوت سلب نہ کریں بلکہ خود اپنی اصلاح کریں اور خود کو ایک با وقار قوم کے‌حکمران بنا کر پیش کریں اور اپنی طفیلی ریاستوں کے بزدل حکمرانوں کے سامنے وضاحتیں پیش کرتے نظر نہ آئیں کیا ہماری اپنی کوئی زندگی نہ ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا ہپم بے زمین ہیں۔۔۔؟یہ سوال ہر شخص خود سے پوچھتا نظر آتا ہے کہ ہم کہاں کھو گئے ہیں پریشان حال مسقتبل سے بے خبر نوجوان وطن کی تعمیر نو کی بجائے دیار غیر جانے کو ترجیح دیتے ہیں شاید اس لئے کہ وہاں انہیں انکی مزدوری پوری اجرت ملتی ہے وہاں انکو لوتنے والا کوئی ساہوکار نہیں باوجود اسکے کہ وہاں یہ نوجوان تیسرے چھوٹے درجے کے شہری بن کر رہنے میں ہی اپنی بقاء
سمجھتے ہیں‌اور اتنی کروی حقیقتوں کو سہتے ہیں کہ اگر انہیں شہریت نہ ملی ہو تو اپنے جنم دینے والوں ،پالنے پوسنے والوں،آنچل پھیلا کر دعائیں دینے والوں،پیشانی کا بوسہ لینے والوں کی اموات پر انکے چہروں کو دیکھنے سے محروم رہتے ہیں اور جب آتے ہیں تو قبروں کی خاک چھانتے ہوئے اٹھتے ہیں تو اپنا دامن خالی دیکھ کر ارض و سماں کے مالک کی جانب نگاہیں اٹھاتے ہیں اور التجا کرتے ہیں اے اللہ ہمیں اپنے پیارے نبی (ص) کی صحیح امت بننے کی توفیق عطا فرما ہم میں وہ اوصاف پیدا کر
جو ہمارے اسلاف کی بیش بہا اثاثہ تھے جن سے ہم محروم ہوچکے ہیں اسی وجہ سے دنیا بھر میں ہماری عزت نہ ہے نہ شنوائی ہےہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اپنی مشکالت کےلئے دعا گو ہونا چاہیئے اسی میں ہماری بقا اور سلامتی ہے نہ کہ دوسروں سے کشکول پکڑ کر مانگنے میں ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ نفرتوں،رنشوں عداوتوں کو بھلا کر خود کو ایک اسلامی مملکت کے باوقار شہری بنانا ہو گا اور یہ عہد ہمیں ایک قوم کے سانچے میں ڈھالنے کےلئے لازمی امر ہے جس کے بعد عالمی میڈیا کا بلا جواز پراپوگیندا اور ہمارے خلاف بننے والے ناپاک منصوبے خاک میں مل جائیں گے ہمارے دشمن نامراد ہوں گے اور اللہ رب العزت ہمیں انشاءاللہ دنیا اور‌آخرت مین سرخرو فرمائیں گے آمین ثم آمین

نوٹ:تحریر کے کوئی ایک لفاظ کسی صاحب علم کی نظر میں مناسب نہ ہوں یا میں درست طریقے سے بیان نہ کر سکا ہوں تو معاف فرمائیں گا تعاون کا طلب گار
اپنا رابطہ نمبر ختم کیا

0 comments:

Post a Comment