Sunday, July 4, 2010

مسلمانوں کی ترقی کے اصول ۔۔ تقویٰ، اتحاد ملت، تبلیغ ودعوت

مسلمانوں کی ترقی کے اصول ۔۔ تقویٰ، اتحاد ملت، تبلیغ ودعوت
محترم امام علی دانش
الله تعالیٰ نے سورہٴ آل عمران میں مسلمانوں کی ترقی اور اجتماعی کامیابی کے لیے خاص طور سے تین اصول کی تلقین فرمائی ہے، سب سے پہلے تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت ان الفاظ میں فرمائی کہ:﴿ یآیھا الذین آمنوا اتقوا الله حق تقاتہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون﴾․
”اے ایمان والو! ڈرتے رہو الله سے، جیسا چاہیے اس سے ڈرنا اور بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان نہ دینا۔“
تقویٰ کیا ہے؟
مکمل تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تقویٰ عربی زبان کا لفظ ہے، بچنے اور اجتناب کرنے کے معنی میں آتا ہے اور جن چیزوں سے بچنے کا حکم ہے وہ ڈرنے ہی کی چیزیں ہوتی ہیں ،ان میں مبتلا ہونے پر الله کی ناراضی اور سزا کا خوف ہوتا ہے، اسی لیے تقویٰ کا ترجمہ ڈرنا بھی کیا جاتا ہے ۔
حضرت عبدالله بن مسعود وغیرہ کے واسطے سے یہ روایت منقول ہے کہ: ” حق تقویٰ یہ ہے کہ الله کی اطاعت ہر کام میں کی جائے، کوئی کام اطاعت کے خلاف نہ ہو اور اس کو ہمیشہ یاد رکھیں، کبھی نہ بھولیں اور اس کا شکر ہمیشہ ادا کریں، کبھی ناشکری نہ کریں۔“
تقویٰ کا ادنیٰ درجہ کفر وشرک سے بچنا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے ہر مسلمان متقی کہا جاسکتا ہے او راعلیٰ درجہ ہر اس چیز سے بچنا جو الله او راس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے، یہاں تک کہ یہ مقام حاصل ہو جائے کہ قلب وذہن ہر وقت الله کے ذکر اور اس کی رضا جوئی کی فکر سے معمورر ہے۔ جو شخص پوری زندگی فرماں برداری اور پرہیز گاری پرقائم رہے گا اس کا خاتمہ بھی ان شاء الله العزیز ایمان پر ہو گا، انفرادی حیثیت سے متقی بن جانا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے تو وہ خود بھی الله ورسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچتے رہنے کی پوری کوشش کرتا رہے اور دوسروں کو بھی اطاعت وتقویٰ کے راستہ پر لانے کی جدوجہد حسب استطاعت کرے ،تاکہ اجتماعی طور پر بھی ملت اسلامیہ میں تقویٰ کی صفت غالب آجائے، اس کے لیے اتحاد واتفاق ضروری ہے، اس لیے آگے کی آیت میں ہدایت فرمائی گئی۔
دینی بنیاد پر اتحاد کا حکم
﴿فاعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا﴾․
”اور مضبوط پکڑو رسی الله کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو۔“
تفسیر ابن کثیر میں عبدالله بن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”کتاب الله وہ الله کی رسی ہے‘ جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے مطلب یہ ہے۔“ کہ الله تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے قائم رہو۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اتحاد ملت برقرار رہ سکتا ہے ۔ امت مسلمہ کی شیرازہ بندی الله تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں ہی کی جاسکتی ہے، جیسا کہ اسلام کے قرون اولیٰ میں اس کا مشاہدہ ہو چکا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے صدیوں کی عداوتیں اور کینے مٹا کر اہل اسلام کو بھائی بھائی بنا دیا تھا، جس کے نتیجہ میں دونوں جہاں کی فلاح نصیب ہوئی اور جب تک قرآن حکیم سے مسلمانوں کا انفرادی واجتماعی رشتہ مضبوط رہا سر بلندی وسرفرازی ان کے قدم چومتی رہی #
وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
ہم کو کتاب سنت کی روشنی میں متحد ومتفق ہو کر آگے بڑھنا چاہیے #
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
اسلام کی بنیادی باتوں پر اتحاد ہو جائے پھر ضروری اختلاف مضر نہ ہوں گے اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے تبلیغ ودعوت کی ذمہ داری ادا کرنی ضروری ہے، اس کی اہمیت بیان کرنے کے لیے ارشاد فرمایا:
دعوت الی الخیر پر کامیابی موقوف ہے
﴿ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر ویأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر واولئک ھم المفلحون﴾․
”اور چاہیے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی، جو بلاتی رہے خیر کی طر ف اور اچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برائی سے روکے اور ایسے لوگ پورے کامیاب ہوں گے۔“
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہمہ تن دعوت وتبلیغ کی خدمت پر متعین رہے، جس کا وظیفہ ومشغلہ بس یہی ہو کہ دین کی طرف مخلوق کو بلایا کرے اور اس کام کی اہمیت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہر مسلمان اپنے حسب حال اس خدمت میں تعاون کرے، اس لیے پوری امت کو مخاطب کرکے فرمایا: ﴿کنتم خیر امةٍ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون بالله﴾․
” ( اے امت محمدیہ!) تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم لوگ نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور ( خود بھی) الله پرایمان رکھتے ہو۔“
اس آیت میں امت محمدیہ کے خیر الامم ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ خلق ا لله کو نفع پہنچانے کے لیے وجود میں آئی ہے اور گزشتہ تمام امتوں سے زیادہ فریضہٴ دعوت وتبلیغ کی ادائیگی اس امت کے ذریعہ مقدر ہے۔ پہلے ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ اس فریضہ سے عمومی اور کلی غفلت اختیار کی جاتی رہی ہے، لیکن یہ امت اس فریضہ کو بالکل کبھی متروک نہ کرے گی۔
ارشاد نبوی ہے کہ:
”اس امت میں تاقیامت ایک ایسی جماعت قائم رہے گی جو فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ادا کرتی رہے گی۔“
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس فریضہ کے ترک پر وعیدیں بھی سنائی ہیں، تاکہ امت میں اس کی طرف سے غفلت عام نہ ہو جائے، آپ نے فرمایا کہ:
” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! کہ تم ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ قریب ہے کہ الله تعالیٰ گنہگاروں کے ساتھ تم پر بھی عذاب بھیج دے، اس وقت تم الله تعالیٰ سے دعا مانگو گے۔جو قبول نہ ہو گی۔“
ایک حدیث میں ہے:
”تم میں سے جو شخص کوئی گناہ ہوتا ہوا دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اپنے ہاتھ( قوت) سے اس کو روک دے اور اگر یہ نہ کرسکے تو زبان سے منع کرے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم دل سے اس منکر کو بُرا سمجھے اور یہ ادنیٰ درجہ کا ایمان ہے۔“
مذکورہ روایتیں مشکوٰة شریف سے لی گئی ہیں۔
امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھلائی کو پھیلانے او ربرائی کو روکنے کی کوشش اپنے علم واستطاعت کے مطابق کرے۔
خاتم النبیین حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دین کی امانت اپنی امت کے سپرد فرما دی، اب کوئی کتاب آسمان سے نازل نہ ہو گی اور نہ کوئی نبوت ورسالت ہو گی ۔ امت کی یہ ذمہ داری ہے کہ دین کی امانت کو محفوظ رکھنے کی سعادت حاصل کرے، اگر ایک قوم اس سعادت سے محروم ہو گی تو دوسری قوم کو الله تعالیٰ اس منصب پر فائز کر دے گا۔
دعوت وتبلیغ کے دو درجے
دعوت الی الخیر کے دو درجے ہیں، پہلا یہ ہے کہ غیر مسلموں کو خیر یعنی اسلام کی طرف دعوت دینا، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اسلام کی عملی زندگی کا نمونہ بنے اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کا تعارف اچھے طریقے سے کرائے۔ اگرآج امت مسلمہ اپنا مقصد دیگر اقوام کو خیر کی طرف دعوت دینا بنالے تو وہ سب بیماریاں ختم ہو جائیں گی جو دوسری قوموں کی نقالی سے ہمارے اندر پھیلی ہیں، صحابہ کرام کی کامیابیوں کا راز یہی تھا کہ انہوں نے اپنی زندگیوں کا مقصد مخلوق خدا کی اصلاح وترتیب کو بنالیا تھا ،اس جماعت کا ہر فرد اسلام کا نمونہٴ کامل تھا اور خود کو دعوت الی الخیر کا ذمہ دار سمجھتا تھا۔
حالات کا تقاضا
زمانہ کے حالات مسلم خوابیدہ کو آواز دے رہے ہیں کہ #
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں اشتراک کی تحریک منظر عام پر لاچکی ہے او راب فتنہ اشتراکیت ( کمیونزم) بھی خود کشی کر رہا ہے، کمیونزم کے سب سے بڑے داعی روس میں نیا انقلاب آرہا ہے، خدا فراموشی اور مذہب بیزاری کے برے انجام کو لوگوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ دنیا میں صرف اسلام ہی وہ نظام فکر وعمل ہے جو تباہی کے دہانے پر کھڑی دنیا کو نجات دے سکتا ہے، بڑی ضرورت ہے کہ اہل اسلام قرآنی دعوت کا پرچم تھام کر آگے بڑھیں، کامیابی ان کے قدم چومنے کے لیے منتظر ہے۔
ایک غیر مسلم کی شہادت
ایک ہندو فاضل مسٹر سی، این مہتا نے لکھا ہے کہ:
” مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ روحانی قوت جس نے معمولی لوگوں کو پر شکوہ اور بہادر بنایا تھا، اب بھی دنیا میں کایا پلٹ کر سکتی ہے، اسلام کا پیغام اب کسی قوم کا خاص حصہ نہیں بلکہ تمام دنیا والوں کا ورثہ ہے، ہندوستان میں مسلمانوں کا ہی حصہ وہ کارنامے نہیں ہیں جو اسلام کے ذریعہ ظاہر ہوئے، اسلام کی تلوار نیام میں گئے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں، مگر اسلام کاتسلط پہلے سے کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ پیغمبر اسلام نے اسلام کے اصول سادگی ، حق پرستی اور مساوات قرار دیے ہیں۔“ ( خطبہ صدارت سی مہتا بحوالہ مکتوبات نبوی)
حقیقت یہی ہے کہ الله، رب العلمین او راس کے آخری نبی رحمة للعالمین ہیں۔ اسلام کا چشمہٴ رحمت سب کے لیے ہے ۔ جلد ہی وہ دور آنے والا ہے ان شاء الله کہ اسلام کو ظاہری غلبہ بھی پوری دنیا پر نصیب ہوجائے گا۔
افق پر جلوہٴ نور سحر معلوم ہوتا ہے
زمانہ تیرگی کا مختصر معلوم ہوتا ہے
مسلمانوں میں تبلیغ
دعوت دین کا دوسرا درجہ خود مسلمانوں کو دعوت خیر دینا ہے۔ تمام مسلمانوں کو ضروریات دین سے واقف کر دیا جائے۔ امت مسلمہ میں علوم قرآن وسنت کے ماہرین پیدا ہوں اور دین خالص کی روشنی میں غیر اسلامی نظریات اور رسوم باطلہ وخیالات فاسدہ کو مٹایا جائے۔ احیائے سنت اور فروغ دین کی جدوجہد منظم طور پر کی جائے، کیوں کہ جب تک دعوت خیر دینے والوں میں خیر نہ ہوان کی دعوت کا اثر دوسروں پر نہیں پڑ سکتا۔
بقول شاعر #
آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو
پیکر عمل بن کر غیب کی صدا ہو جا

0 comments:

Post a Comment