خطرہ حرم اور حجاب سے ہی
مغربی تہذیب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے کبھی انسان کو معاشرتی ”حیوان“ کی سطح سی اوپر دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ لہٰذا اسلام جب انسان اور انسانی معاشرے کو اعلیٰ تہذیبی اقدار سے مزین کرتا ہے تو یہ چیز مغرب کو خلافِ فطرت محسوس ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے مغرب اسلام کے خاندانی نظام اور قوانین حجاب کو بھی تسلیم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ملکوں ملکوں حجاب پر پابندی کے قوانین منظور کرائے جارہے ہیں۔ مغرب کی انسانیت کے شرف سے محرومی کی دلیل یہ ہے کہ عورت کی بے لباسی اور اسے بکاﺅ مال بنادیئے جانے کے خلاف تو کسی اخلاقی حد بندی کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی لیکن اگر مسلمان خاتون ایک رومال سے اپنا سر ڈھانپ لیتی ہے تو یہ عمل قانونی جرم بن جاتا ہے۔دیکھا جائے تو حجاب کے خلاف عالمی مہم کے پیچھے جہاں سیکولر لابی کی جارحانہ پالیسی کار فرما ہے وہاں سرمایہ دارانہ استعمار کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ میک اپ اور کاسمیٹک انڈسٹری جو صرف امریکا میں سالانہ 8 بلین ڈالر کماتی ہے اور عالمی منڈی میں سالانہ 19 بلین ڈالر کا کاروبار کرتی ہی، وہ آخر یہ بات کیسے قبول کرسکتی ہے کہ خواتین اپنے جسم، بال اور چہرے کو چھپا کر رکھیں۔ ظاہر ہے کہ جو خواتین باحجاب گھر سے باہر نکلتی ہیں وہ اپنی غیر معمولی تزئین و آرائش کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔ لہٰذا مغرب میں خواتین کے اندر تیزی سے پھیلتا ہوا اسلام اور حجاب کی مقبولیت، سرمایہ دارانہ استعمار کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی لگنے لگی ہے۔اتنا تو سب جانتے ہیں کہ مغربی ممالک کے اندر حجاب کے خلاف کریک ڈاﺅن سراسر غیرمنطقی اور تعصب پر مبنی ہے۔ اب تک فرانس، بلجیم، ہالینڈ، اٹلی اور ڈنمارک جیسے خالص سیکولر ممالک کے اندر حجاب کا استعمال قانونی جرم قرار دیا جاچکا ہے۔ بلجیم کی تو کل آبادی کا صرف 4 فیصد حصہ مسلمان ہیں جن میں حجاب استعمال کرنے والی خواتین صرف 100 ہیں۔ محض ایک سو نفوس پورے ملک کے لیے آخر کیا مشکل پیدا کرلیتی! یہ سیکولر بے چارے اسلامی شعائر کا ہلکا ساعکس بھی برداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ اب ان ممالک کے حکمران خواہ کوئی جواز پیش کریں، لیکن ان پابندیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ انہیں اسلام کے تصور حیا اور حجاب سے خوف لاحق ہے جو دنیا بھر کے اندر خواتین میں اسلام کے فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ حجاب کی اس قوت کا راز یہ ہے کہ حجاب محض کسی عورت کا انفرادی عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک تہذیب کا اعلان اور عقیدے کا اظہار ہوتا ہے۔ عام طور پر سعودی عرب، ایران اور طالبان کے زیر انتظام افغانستان پر یہ تنقید کی جاتی تھی کہ یہاں خواتین کو بزور حجاب کا پابند بنایا جاتا ہے۔ تنقید کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ وہ ممالک ہیں جہاں اسلام کی حیثیت سرکاری مذہب کی ہے جہاں حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العالمین کی تسلیم کی جاتی ہے۔ البتہ جواز تو سیکولر مغربی ممالک کے اندر حجاب پر پابندی عائد کرنے کا سمجھ نہیں آتا۔ گویا ان ممالک کے اندر مذہب تو ریاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا مگر ریاست کو مذہب کے معاملات میں مداخلت کرنے کا پورا اختیار ہے۔ اگر یہی سیکولر ازم کا اصل مفہوم ہے تو بنیادی انسانی حقوق اور شخصی آزادی کی خیر منایئی!اصلی بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں حجاب مخالف پروپیگنڈہ اسلام کے خلاف روایتی بغض اور تعصب کی بنا پر پھیلایا جارہا ہے۔ جس پر پردہ ڈالنے کے لیے رنگ برنگ توجیہات پیش کی جاتی ہیں۔ یوں تو برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر، وزیر خارجہ جیک اسٹرا، اٹلی کے وزیراعظم رومانو پیراڈی بھی خاصی دلچسپ باتیں کرتے رہے ہیں مگر خاص طور پر فرانس کے صدر نکولس سرکوزی ہمیشہ اپنے قد کے مطابق بات کرتے ہیں۔ کبھی تو وہ کہتے ہیں کہ حجاب ایک مذہبی علامت ہے جس سے فرانس کی سیکولر شناخت متاثر ہوتی ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ یہ کوئی مذہبی علامت نہیں ہے بلکہ خواتین کو نیچا دکھانے کی سازش ہے اور یہ کہ برقع اور حجاب آمرانہ اقدام، نسل پرستی اور متعصب ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے بڑی حسین منطق یہ بھی ایجاد کی کہ: Seeing is believing, when a woman looks liberated, She must be liberated. گویا انہوں نے کہاکہ برقع پوش خواتین کسی قیدی کی طرح نظر آتی ہیں۔ اس طرح کی باتیں کرکے صدر سرکوزی نے اپنا قد مزید چھوٹا کرلیا ہے۔ کیوں کہ حجاب کے خلاف ان کا بیان کردہ کوئی ایک جواز بھی ٹھوس نہیں ہی، جبکہ مسلمان خواتین کے لیے پردے کے حق میں بس ایک جواز ہی کافی ہے کہ حجاب ”حکم الٰہی“ ہے۔ ویسے بہتر ہوتا اگر مسٹر سرکوزی حجاب کو ایک مذہبی علامت کہہ کر خاموش ہوجاتے لیکن حجاب کو خواتین کو نیچا دکھانے کی سازش قرار دینا ان کی کج فہمی کا نکتہ ¿ کمال ہے۔ اس طرح کی سوچ اس شخص کی فطری خباثت کی آئینہ دار ہے جس نے خود فرانس کی ایک ٹاپ ماڈل کے ساتھ شادی کی جو اپنی بے ہودگی میں بڑا نام کما چکی ہے۔ فرانس کی خاتون اوّل کی بے ہودہ ترین تصاویر فرانس کے شاپنگ مالز، ٹی شرٹس اور شاپنگ بیگز پر چھپتی رہیں۔ ان کی اشاعت پر بعد میں پابندی بھی لگادی گئی۔ یہاں ان نامناسب حوالوں پر بات کرنے کے پیچھے ہمارا مقصد صرف یہ نکتہ نکالنا ہے کہ ”کیا اصولاً ان تصاویر پر پابندی اور اسلامی حجاب پر پابندی کا آپس میں کوئی جواز بنتا ہی؟“ اگر پہلا اقدام درست ہے تو دوسرا لازماً غلط تسلیم کیا جانا چاہیے۔حجاب کو جبر، قدامت پسندی اور انتہا پسندی کی علامت قرار دینے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی عورت کے مقام کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی رفعتوں تک پہنچا دیا تھا جبکہ مغرب کے تہذیبی انحطاط کا عالم یہ تھا کہ آج سے صرف دو سو سال پہلے تک انسانی گوشت لندن کے بازاروں میں فروخت ہوا کرتا تھا اور ابھی انیسویں صدی تک یورپ کی منڈیوں میں غلاموں کی تجارت کا کاروبار عروج پر تھا۔اسلامی تہذیب کا امتیاز ہی یہ ہے کہ یہ چودہ سو سال پہلے بھی جدید تھا اور آج بھی۔ اس تمام عرصے میں اسلام نے بے انتہا نشیب و فراز طے کیے مگر حرم اور حجاب کو کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ اس لیے کہ یہی حرم اور حجاب اسلامی تہذیب کی آخری پناہ گاہ ہے۔ اسلام کے خاندانی نظام اور احکام حجاب کا مقصود یہ ہے کہ اگر شیطانی تہذیب پورے معاشرے پر بھی مسلط ہوجائے تو کم از کم وہ آغوش جس میں ایک مسلمان بچہ پرورش پاتا ہے وہ خود عفت و پاکیزگی کا گہوارہ ہو اور جس ماحول میں ایک نسل اپنی تربیت کی بنیادی منزلیں طے کرتی ہی، وہ حرم تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہو۔آج مغرب کو اصل خطرہ ایک حجاب نما کپڑے یا کسی چار دیواری سے نہیں بلکہ اس غیور نسل سے در پیش ہے جو اس کی زیر سایہ پرورش پانے والی ہے۔ |
0 comments:
Post a Comment